یہ پوسٹ زرا طویل ہے لیکن پڑھیے گا ضرور انشاء اللہ پڑھ کر آپ کو محسوس یو گا کہ آپ نے کچھ حاصل کیا ہے



یہ پوسٹ زرا طویل ہے لیکن پڑھیے گا ضرور انشاء اللہ پڑھ کر آپ کو محسوس یو گا کہ آپ نے کچھ حاصل کیا ہے
سوال
====
کیا آپ کو میرا نام معلوم ہے اور کون سا اسلامی قانون ہے جس کا پہلی
مرتبہ یہاں عملی مظاھرہ ہوا -
======================================
مسجد نبوی کے جنوب میں چند میٹر کے فاصلے پر یہ چار مسجد یں بنی ہوئی ہیں جنکو میں نے چار مختلف رنگوں کے چوکور خانوں میں دیکھایا ہے - یہ چاروں مساجد اپنی جگہ انتہائی متبرک ہیں اور مدینہ میں آنے والے زائرین کے لیے انکی زیارت کچھہ مشکل نہیں کیوں کہ یہ مسجد نبوی سے پیدل کے رستے پر ہیں جیسا کہ آپکو تصویر میں بھی نظر آرہا ہے لیکن مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے زائرین انکی زیارت سے محروم رہ جاتے ہیں-

نہ صرف یہ چاروں مساجد بلکہ یہ پورا علاقه جہاں یہ چاروں مسجدیں موجود ہیں بہت متبرک ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے جڑے بہت سے تاریخی واقعیات نے اس پورے خطے کو متبرک بنا دیا ہے -

ان چاروں مساجد میں سب سے اہم مسجد نارنجی یعنی اورنج خانے میں نظر آرہی ہے جس کا نام '' مسجد غمامہ '' ہے - یہ وہ متبرک مسجد ہے جہاں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سخت دھوپ میں جب مدینہ قحط کی صورت سے دو چار تھا اور انسانوں سمیت جانور اور درخت تک سوکھ گئے تھے ، الله سبحان و تعالی کی بارگاہ میں بارش کی دعا کی تھی تو دوران دعا بادل کا ایک ٹکڑا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سر مبارک پر سایہ فگن ہوگیا تھا اور فوری طور سے مدینہ میں بارش شروع ہوگی اور پورا مدینہ ہرا بھرا ہوگیا - اس واقعہ کے وقت آپکے نو عمر نواسے سیدنا حسن رضی الله عنہ بھی آپ کے ساتھہ تھے - اس واقعہ کی مناسبت سے اس مقام پر بنائی جانے والی اس مسجد کا نام '' مسجد غمامہ '' رکھا گیا کیوں کہ عربی میں غمامہ ''بادل '' کو کہتے ہیں -

اس کے علاوہ اس مقام پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عید کی نمازیں بھی پڑھی ہیں اور قربانی کے اونٹ اور بھیڑیں بھی نحر یعنی قربان کی ہیں -

مسجد غمامہ کے مقام پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حبشہ کے بادشاہ '' نجاشی '' جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بہت محبت کرتا تھا اور دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکا تھا ، کی موت کی خبر بھی اسی دن لوگوں کو دی جس دن اسکا انتقال ہوا حالانکہ اس وقت کمیونیکیشن کے کوئی زرایع نہ تھا - اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسی مقام پر نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی تھی -

رسول مکرم سیدنا محمّد صلی الله علیہ وسلم جب کسی سفر سے مدینہ منورہ واپس پھنچتے تھے تو آپ اس مقام سے گذرتے ہوے قبلہ رخ ہو کر الله کریم سے دعائیں مانگتے تھے -

اس تصویر میں آپکو ایک براؤن عمارت بھی نظر آرہی ہے جس پر میں نے وضاحت کے لیے ایک کالے رنگ کا خط
( یعنی لاین ) کھینچ دیا ہے - یہ دراصل وہ مقام ہے جہاں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پہلا اسلامی بازار قائم کیا تھا جو یہودیوں کے پہلے سے موجود بازاروں کے مقابل بنایا گیا تھا تاکہ مسلمان اپنی تعلیمات کے مطابق تجآرت کر سکیں - اس اولین اسلامی بازار کا نام رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے '' مناکه '' رکھا تھا - یہ بازار آج بھی جدید تقاضوں کے ساتھہ اپنی جگہ موجود ہے جیسا کہ آپکو تصویر میں نظر آرہا ہے -

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اس دنیا فانی سے پردہ فرمانے کے بعد خلفاے راشدین نے بھی ان مقامات پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرتے ہوتے وہ سب افعال کیے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم یھاں کیا کرتے تھے اور اس لیے انہوں نے مسجد غمامہ کے ارد گرد اپنے قیام گاہیں بنائیں جو یادگار کے طور پر آج بھی موجود ہے -

لال چوکور خانے میں جو مسجد نظر آرہی ہے وہ '' مسجد عمر ''ہے جبکہ نیلے چوکور خانے میں '' مسجد ابو بکر صدیق '' ہے اور ہرے رنگ کے خانے میں '' مسجد علی '' نمایاں ہے -

ان چاروں مساجد سے ملحق پورا کرۂ ارضی جو میں نے مختلف رنگوں
کے تیر سے جوڑا ہے ایک خاص نام سے جانا جاتا ہے اور اسی مخصوص خطے میں ان تمام تاریخی واقعیات کے ساتھ جو میں نے اوپر بیان کیے ہیں ، اسلام کے ایک اہم قانون کا رسول الله صلی الله علیہ کے حکم پر پر پہلی مرتبہ عملی مظاھرہ بھی کیا گیا تھا -

آپ صرف دو باتیں بتادیں :-

١- اس پورے خطے کو کس نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی اسکا نام کیا ہے ؟ اور

٢- وہ کونسا سے ایسا اسلامی قانون ہے جسکا پہلی مرتبہ اس خطے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر عملی مظاھرہ ہوا ؟

==========================================

جواب حاضر ہے
============

اس سوال کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ یہ پورا علاقہ جہاں یہ چاروں مسجدیں قائم ہیں '' المصلی '' [ almusala ] کہلاتا ہے -

'' المصلی '' کا لفظ '' صلا ہ '' سسے نکلا ہے جسکے معنی نماز کے ہیں اور کیوں اس پورے قطہ ارضی پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اور خلفا راشدیں کی زندگیوں میں فرض نمازوں کے علاوہ بہت سی نماز عیدیں ، نماز استسقا
[ بارش کی نماز ] اور غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گیئیں ہیں اس لیے اس پورے مقام کو '' المصلی '' کہتے ہیں -

دوسرے سوال کے جواب میں آپ '' سیدنا ابو ہریرہ رضی الله تعالی عنہ اور سیدنا جابر بن عبدالله انصاری رضی الله تعالی کی ان دو احادیث مبارکہ '' کو ملاحظہ فرمائیں تو آپکے علم میں یہ بات آ جاتے گی کہ '' المصلی '' کے اس علاقہ میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر کس اسلامی قانون پر پہلی مرتبہ عملدرآمدگی کرائی گئ-

'' سیدنا ابو ہریرہ رضی الله تعالی عنہ '' فرماتے ہیں :-

رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسجد شریف میں تشریف فرما تھے کہ بنی اسلم کا ایک شخص رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا '' --- آے الله کے رسول مجھہ سے زنا کا فعل سر زر ہوگیا ہے ------- ''

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس شخص کی جانب سے اپنی چہرہ مبارک دوسری جانب کر لیا - وہ شخص دوسری جانب چلا گیا اور یہی بات اسنے دوسری مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے دھرائی - رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا چہرہ انور اسکی طرف سے دوبارہ موڑ لیا - وہ شخص تیسری مرتبہ اس جانب آیا جس جانب سرکار سیدنا محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنا رخ انور کیا ہوا تھا اور اس شخص نے تیسری بار اپنے اس قبیح گناہ کا اقرار کیا - ہادی بر حق سیدنا محمّد صلی الله علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک ایک مرتبہ پھر اسکی جانب سے پھیر لیا - وہ شخص چوتھی بار رسول الله صلی الله علیہ وسلم '' کے سامنے ان کھڑا ہوا اور اپنے فعل قبیح کی اسنے چوتھی مرتبہ تکرار کی -

اس موقع پر جب کہ وہ اپنے اس گناہ کی چار مرتبہ شہادت دے چکا تھا ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا کہ '' کیا تم ذہنی اعتبار سے پاگل ہو '' اس شخص نے جواب دیا
'' نہیں '' -

وہ شخص کیوں کہ شادی شدہ تھا ، اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ اس شخص کو سگسار کر دیا جاتے -

سیدنا جابر بن عبدالله انصاری رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں

''میں بھی
ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اس شخص پر سنگ باری کی تھی
ہم نے اسپر سنگ باری '' المصلی '' کے علاقے میں شروع کی تھی لیکن وہ شخص یھاں سے بھاگ کھڑا ہوا تا ہم نے کچھہ فاصلے پر موجود '' حرہ '' کے علاقے میں اسے دوبارہ قابو میں کر کے اسے سنگسار کر دیا یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا -

گویا یہ اوپر تصویر میں نظر آنے والا '' المصلی '' کا ہی علاقہ ہے جہاں قرانی تعلیمات کے مطابق زنا جیسے قبیح جرم کی سزا کا عملی مظاھرہ ہوا -

نوٹ :-
اسلامی سزائیں در اصل دو لحاظ سے فائدہ مند ہیں - اول تو اس سے معاشرے کے دوسرے مجرموں کو سبق ملتا ہے اور جرائم نہ ہونے کے برابر ہو جاتے ہیں اور دوسرے مجرم کے ساتھ روز قیامت الله کا رحم کی توقع ہوتی ہے کیوں کہ وہ دنیا می شرعی سزا بھگت چکا ہوتا ہے اور یقینا'' آخرت کی سزا کے مقابل تہ کچھ نہیں

Post a Comment

0 Comments