چاہنے والوں کو ملتے نہيں چاہنے والے ہم نے ہر دغاباز کے بانہوں میں صنم دیکھے ہیں
بہت عجیب ہے یہ بندشیں محبت کی نہ اس نے قید میں رکھا نہ فرار ہو سکے ہم
وہ لمحے تھے ہی نہیں تمہارے پاس جن پہ حق ہو میرا تم جب بھی آئے بس اپنا دل بہلانے آئے…
کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
جس کے پیچھے میں نے اپنا آپ گوایا میرے علاؤہ، ہر شخص سے محبت نبھائی اس نے
اور پھر میں نے وہاں صبر کر لیا جہاں لوگوں کے لہجے ان کے منہ پر مارنے تھے
کبھی کبھی زندگی ایسی ٹھوکر مارتی ہے کہ انسان سیدھا سجدے میں جا گرتا ہے
محبت میں لاپرواہی کہاں جچتی ہے بھلا محبت میں خیال یار تو فرض بن جاتا ہے
میں نے رشتوں پہ اعتبار کیا اور پھر مجھ کو کھا گئے رشتے
صفائی دینا مجھے زہر لگتا ہے آپ نے تعلق ختم کرنا ہے تو بسم اللّٰہ کیجئے
کسی نے پاس رہ کر بھی ٹھکرایا مجھے کسی نے دور سے دیکھ کر بھی صدقے اتارے