دعا کا ٹوٹا ہوا حرف' سرد آہ میں ہے
تری جدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے
ترے بدلنے کے با وصف تجھ کو چاہا ہے
یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے
عذاب دیگا تو پھر مجھ کو خواب بھی دیگا
میں مطمئن ہوں مرا دل تری پناہ میں ہے
بکھر چکا ہے مگر مسکرا کے ملتا ہے
وہ رکھ رکھاؤ ابھی میرے کجکلاہ میں ہے
جسے بہار کے مہمان خالی چھوڑ گئے
وہ اک مکان ابھی تک مکیں کی چاہ میں ہے
یہی وہ دن تھے جب اکدوسرے کو پایا تھا
ہماری سالگرہ ٹھیک اگلے ماہ میں ہے
میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی
مرے قبیلے کا ہر فرد' قتل گاہ میں ہے
0 Comments