دسمبر آگیا ہے پھر طبیعت میں اُداسی ہے
بدن سیراب ہوتے ہیں مگر یہ رُوح پیاسی ہے
میں اُن سے پُوچھنا تو چاہتا ہوں کہہ نہیں پاتا
کہ آخر کس لیے مجھ سے وہ اِک ہستی خفا سی ہے
محبت زندگی ہے موت اس کو آ نہیں سکتی
خُدا جانے خُدا کیا ہے محبت تو خُدا سی ہے
اُداسی کا سبب کیا پوچھتے ہو کیا کہوں تم سے
نظر آتی ہے لمبی زندگی لیکن ذرا سی ہے
چلی مشرق سے مغرب کو دسمبر کی ہوا ایسے
کہ جیسے خود اُداسی میں ہوا بھی مبتلا سی ہے
پڑی ہے جان کے پیچھے بتاؤں نام کیا اُس کا
مگر جو بھی ہے جیسی ہے قیامت ہے بلا سی ہے
دسمبر کی ہوا راتوں کو سائیں سائیں کرتی ہے
یُوں لگتا ہے اُداسی بھی ہوا کی ہمنوا سی ہے
جو اُن سے گفتگو کی سرفراز ان کی غزل ٹھہری
وگرنہ تو اُداسی ہے یا میری بد حواسی ہے
0 Comments