بھولی بسری ہوئی یادوں میں کسک ہے کتنی

بھولی بسری ہوئی یادوں میں کسک ہے کتنی
ڈوبتی شام کے اطراف چمک ہے کتنی 

منظر گل تو بس اک پل کے لیے ٹھہرا تھا 
آتی جاتی ہوئی سانسوں میں مہک ہے کتنی 

گر کے ٹوٹا نہیں شاید وہ کسی پتھر پر 
اس کی آواز میں تابندہ کھنک ہے کتنی 

اپنی ہر بات میں وہ بھی ہے حسینوں جیسا 
اس سراپے میں مگر نوک پلک ہے کتنی 

جاتے موسم نے جنہیں چھوڑ دیا ہے تنہا 
مجھ میں ان ٹوٹتے پتوں کی جھلک ہے کتنی 

Post a Comment

0 Comments