عجیب خوف میں ہم اس کے در سے لوٹ آئے
نہ ایسے روئیے ناکامی_محبت پر
خوشی منائیے زندہ بھنور سے لوٹ آئے
یہ سوچتے ہوئے بیٹھے ہیں راہ میں رک کر
اُدھر تو گئے ہی نہیں تھے جدھر سے لوٹ آئے
لب اس کے سامنے تھے اور ہم نے چوما نہیں
سمجھ لو پاؤں اٹھے اور در سے لوٹ آئے
ابھی تو وقت ہے سورج کے ڈوبنے میں تو پھر
یہ کیا ہوا کہ پرندے سفر سے لوٹ آئے
کسی بھی طرح یہ دنیا نہ چھوڑ پائے ہم
کہ جب بھی نکلے تری رہ_گزر سے لوٹ آئے
پھر اس نے دیکھا کوئی تارا ٹوٹتے اک رات
پھر ایک روز مسافر سفر سے لوٹ آئے
مرے گزرنے کی افواہ ہی اڑا دے کوئی
کسے خبر کہ وہ جھوٹی خبر سے لوٹ آئے
0 Comments